بچہ مجبوریوں کو کیا جانے
اک کھلونا خریدنا تھا مجھے
نصرت گوالیاری
بھول جانے کا مجھے مشورہ دینے والے
یاد خود کو بھی نہ میں آؤں کچھ ایسا کر دے
نصرت گوالیاری
بولتے رہتے ہیں نقوش اس کے
پھر بھی وہ شخص کم سخن ہے بہت
نصرت گوالیاری
ڈھونڈنے والے غلط فہمی میں تھے
وہ انا کے ساتھ اپنے سر میں تھا
نصرت گوالیاری
دلوں کے بیچ کی دیوار گر بھی سکتی تھی
کسی نے کام لیا ہی نہیں تدبر سے
نصرت گوالیاری
ہم تری تلخ گفتگو سن کر
چپ ہیں لیکن سبب سمجھتے ہیں
نصرت گوالیاری
ہر شخص اپنی اپنی جگہ یوں ہے مطمئن
جیسے کہ جانتا ہو قضا کا ہے رخ کدھر
نصرت گوالیاری
حسن اتنا ایک پیکر میں سمٹ سکتا نہیں
تو بھی میرے ہی کسی احساس کی تصویر ہے
نصرت گوالیاری
اک قسم اور زندہ رہنے کی
وار تیکھا سہی مقدر کا
نصرت گوالیاری