کیوں فلک آشنا کیا تھا مجھے
جب زمیں پر ہی پھینکنا تھا مجھے
بن گیا میں کتاب قصوں کی
اس نے اک لفظ میں کہا تھا مجھے
اب نگینہ ہے کل یہی پتھر
راستے میں پڑا ملا تھا مجھے
اس کا آسیب مجھ پہ برسے گا
حادثہ یہ بھی جھیلنا تھا مجھے
میں نقیب صبا تھا پھولوں نے
پتھروں کی طرح سنا تھا مجھے
میں صدا ساحلوں کی کیا سنتا
رخ ہواؤں کا موڑنا تھا مجھے
میں بہت کام کا تھا اس کے لئے
اور ضائع وہ کر رہا تھا مجھے
اب وہ خود کو تلاش کرتا ہے
جو کبھی مجھ میں ڈھونڈھتا تھا مجھے
بچہ مجبوریوں کو کیا جانے
اک کھلونا خریدنا تھا مجھے
غزل
کیوں فلک آشنا کیا تھا مجھے
نصرت گوالیاری