EN हिंदी
نذر جاوید شیاری | شیح شیری

نذر جاوید شیر

4 شیر

مٹی کی آواز سنی جب مٹی نے
سانسوں کی سب کھینچا تانی ختم ہوئی

نذر جاوید




وار ہر ایک مرے زخم کا حامل آیا
اپنی تلوار کے میں خود ہی مقابل آیا

نذر جاوید




یہ تو اے جاویدؔ گزرے موسموں کی راکھ ہے
آخرش کیا ڈھونڈھتا ہے تو خس و خاشاک میں

نذر جاوید




زندہ رہنے کے تقاضوں نے مجھے مار دیا
سر پہ جاویدؔ عجب عہد مسائل آیا

نذر جاوید