اب کہاں تک پتھروں کی بندگی کرتا پھروں
دل سے جس دم بھی پکاروں گا خدا مل جائے گا
نفس انبالوی
اب تک تو اس سفر میں فقط تشنگی ملی
سنتے تھے راستے میں سمندر بھی آئے گا
نفس انبالوی
اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں
نفس انبالوی
اپنے دراز قد پہ بہت ناز تھا جنہیں
وہ پیڑ آندھیوں میں زمیں سے اکھڑ گئے
نفس انبالوی
ہماری راہ سے پتھر اٹھا کر پھینک مت دینا
لگی ہیں ٹھوکریں تب جا کے چلنا سیکھ پائے ہیں
نفس انبالوی
ہماری زندگی جیسے کوئی شب بھر کا جلسہ ہے
سحر ہوتے ہی خوابوں کے گھروندے ٹوٹ جاتے ہیں
نفس انبالوی
ہمیں دنیا فقط کاغذ کا اک ٹکڑا سمجھتی ہے
پتنگوں میں اگر ڈھل جائیں ہم تو آسماں چھو لیں
نفس انبالوی
انکار کر رہا ہوں تو قیمت بلند ہے
بکنے پہ آ گیا تو گرا دیں گے دام لوگ
نفس انبالوی
اس شہر میں خوابوں کی عمارت نہیں بنتی
بہتر ہے کہ تعمیر کا نقشہ ہی بدل لو
نفس انبالوی