EN हिंदी
نفس انبالوی شیاری | شیح شیری

نفس انبالوی شیر

23 شیر

ہماری زندگی جیسے کوئی شب بھر کا جلسہ ہے
سحر ہوتے ہی خوابوں کے گھروندے ٹوٹ جاتے ہیں

نفس انبالوی




ہماری راہ سے پتھر اٹھا کر پھینک مت دینا
لگی ہیں ٹھوکریں تب جا کے چلنا سیکھ پائے ہیں

نفس انبالوی




اپنے دراز قد پہ بہت ناز تھا جنہیں
وہ پیڑ آندھیوں میں زمیں سے اکھڑ گئے

نفس انبالوی




اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں

نفس انبالوی




اب تک تو اس سفر میں فقط تشنگی ملی
سنتے تھے راستے میں سمندر بھی آئے گا

نفس انبالوی