چلتی تو ہے پر شوخئ رفتار کہاں ہے
تلوار میں پازیب کی جھنکار کہاں ہے
نادر لکھنوی
دریائے شراب اس نے بہایا ہے ہمیشہ
ساقی سے جو کشتی کے طلب گار ہوئے ہیں
نادر لکھنوی
ہیں دین کے پابند نہ دنیا کے مقید
کیا عشق نے اس بھول بھلیاں سے نکالا
نادر لکھنوی
ہو گئے رام جو تم غیر سے اے جان جہاں
جل رہی ہے دل پر نور کی لنکا دیکھو
نادر لکھنوی
اک بات پر قرار انہیں رات بھر نہیں
دو دو پہر جو ہاں ہے تو دو دو پہر نہیں
نادر لکھنوی
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
نادر لکھنوی
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
وہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
نادر لکھنوی
ناؤ کاغذ کی تن خاکیٔ انساں سمجھو
غرق ہو جائیں گی چھینٹا جو پڑا پانی کا
نادر لکھنوی
پھر نہ باقی رہے غبار کبھی
ہولی کھیلو جو خاکساروں میں
نادر لکھنوی