دل آنکھوں سے عاشق بچائے ہوئے ہیں
ہرن کو وہ چیتا بنائے ہوئے ہیں
نہیں لکھتے ہیں خط جو ہم کو وہ قاصد
کسی کے سکھائے پڑھائے ہوئے ہیں
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
وہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
اگر ان کو پوجا تو کیا کفر ہوگا
کہ بت بھی خدا کے بنائے ہوئے ہیں
کوئی باندھو نہ باندھے اب کچھ نہ ہوگا
کہ ہم رنگ اپنا جمائے ہوئے ہیں
ہزج میں بھی اشعار اے نادرؔ اب پڑھ
کہ بزم سخن میں سب آئے ہوئے ہیں
غزل
دل آنکھوں سے عاشق بچائے ہوئے ہیں
نادر لکھنوی