EN हिंदी
دل آنکھوں سے عاشق بچائے ہوئے ہیں | شیح شیری
dil aankhon se aashiq bachae hue hain

غزل

دل آنکھوں سے عاشق بچائے ہوئے ہیں

نادر لکھنوی

;

دل آنکھوں سے عاشق بچائے ہوئے ہیں
ہرن کو وہ چیتا بنائے ہوئے ہیں

نہیں لکھتے ہیں خط جو ہم کو وہ قاصد
کسی کے سکھائے پڑھائے ہوئے ہیں

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
وہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

اگر ان کو پوجا تو کیا کفر ہوگا
کہ بت بھی خدا کے بنائے ہوئے ہیں

کوئی باندھو نہ باندھے اب کچھ نہ ہوگا
کہ ہم رنگ اپنا جمائے ہوئے ہیں

ہزج میں بھی اشعار اے نادرؔ اب پڑھ
کہ بزم سخن میں سب آئے ہوئے ہیں