آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد
منور خان غافل
آئے کبھی تو دشت سے وہ شہر کی طرف
مجنوں کے پاؤں میں جو نہ زنجیر جادہ ہو
منور خان غافل
عاشق کو نہ لے جائے خدا ایسی گلی میں
جھانکے نہ جہاں روزن دیوار سے کوئی
منور خان غافل
اگر عریانیٔ مجنوں پہ آتا رحم لیلیٰ کو
بنا دیتی قبا وہ چاک کر کے پردہ محمل کا
منور خان غافل
اپنے مجنوں کی ذرا دیکھ تو بے پروائی
پیرہن چاک ہے اور فکر سلانے کی نہیں
منور خان غافل
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا غافلؔ
یاد آئی مرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
منور خان غافل
برسوں خیال یار رہا کچھ کھچا کھچا
اک دم مرا جو اور طرف دھیان بٹ گیا
منور خان غافل
دشمن کے کام کرنے لگا اب تو دوست بھی
تو اے رقیب درپئے آزار ہے عبث
منور خان غافل
فریاد کی آتی ہے صدا سینے سے ہر دم
میرا دل نالاں ہے کہ انگریزی گھڑی ہے
منور خان غافل