EN हिंदी
مرزا علی لطف شیاری | شیح شیری

مرزا علی لطف شیر

15 شیر

آج کیا جانے وہ کیوں آرام جاں آیا نہیں
حرف رنجش کل تو کوئی درمیاں آیا نہیں

مرزا علی لطف




بیٹھ کر مسجد میں رندوں سے نہ اتنا بگڑیے
شیخ جی آتے ہو میخانے کے بھی اکثر طرف

مرزا علی لطف




بیگانوں نے کبھی نہ وہ کانوں سنائی بات
افسوس آشنا نے جو آنکھوں دکھائی بات

مرزا علی لطف




دیر تک ضبط سخن کل اس میں اور ہم میں رہا
بول اٹھے گھبرا کے جب آخر کے تئیں دم رک گئے

مرزا علی لطف




ہم اور فرہاد بحر عشق میں باہم ہی کودے تھے
جو اس کے سر سے گزرا آب میری تا کمر آیا

مرزا علی لطف




ہوا آوارہ ہندوستاں سے لطفؔ آگے خدا جانے
دکن کے سانولوں نے مارا یا انگلن کے گوروں نے

مرزا علی لطف




ادھر سے جتنی یگانگت کی ادھر سے اتنی ہوئی جدائی
بڑھائی تھوڑی سی جب ادھر سے بہت سی تم نے ادھر گھٹائی

مرزا علی لطف




کھل گیا اب یہ کہ وصل اس کا خیال خام ہے
آج امیدوں کا دل ہی دل میں قتل عام ہے

مرزا علی لطف




کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
خم مرے منہ سے لگا دو جو سبو ٹوٹ گیا

مرزا علی لطف