آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
مرزا جواں بخت جہاں دار
بسان نقش قدم تیرے در سے اہل وفا
اٹھاتے سر نہیں ہرگز تباہ کے مارے
مرزا جواں بخت جہاں دار
کہیں سو کس سے جہاں دارؔ اس کی نظروں میں
رقیب کام کے ٹھہرے اور ہم ہیں ناکارے
مرزا جواں بخت جہاں دار
کی دل نے دلبران جہاں کی بہت تلاش
کوئی دل ربا ملا ہے نہ دل خواہ کیا کرے
مرزا جواں بخت جہاں دار
مرا خون دل یوں بہا دشت میں
کہ جنگل میں لوہو کے تھالے پڑے
مرزا جواں بخت جہاں دار
مجھ دل میں ہے جو بت کی پرستش کی آرزو
دیکھی نہیں وہ آج تلک برہمن کے بیچ
مرزا جواں بخت جہاں دار
سر رشتہ کفر و دیں کا حقیقت میں ایک ہے
جو تار سبحہ ہے سو ہے زنار دیکھنا
مرزا جواں بخت جہاں دار
ترے عشق سے جب سے پالے پڑے ہیں
ہمیں اپنے جینے کے لالے پڑے ہیں
مرزا جواں بخت جہاں دار