EN हिंदी
منظور عارف شیاری | شیح شیری

منظور عارف شیر

4 شیر

ایسا دلکش تھا کہ تھی موت بھی منظور ہمیں
ہم نے جس جرم کی کاٹی ہے سزا زنداں میں

منظور عارف




بات تیری سنی نہیں میں نے
دھیان میرا تری نظر پر تھا

منظور عارف




ہر شے لمحے کی مہماں ہے کیا گل کیا خوشبو
کیا مے کیا نشۂ آئینہ کیا آئینہ رو

منظور عارف




وہ کیا گیا کہ ہر اک شخص رہ گیا تنہا
اسی کے دم سے تھیں باہم رفاقتیں ساری

منظور عارف