EN हिंदी
جاوید لکھنوی شیاری | شیح شیری

جاوید لکھنوی شیر

13 شیر

ہے دلوں کا وہی جو دانۂ تسبیح کا حال
یوں ملے ہیں پہ ہیں دراصل جدا ایک سے ایک

جاوید لکھنوی




جس جگہ جائیں بنا لیں ترے وحشی صحرا
خاک لے آئے ہیں مٹھی میں بیابانوں کی

جاوید لکھنوی




کہیں ایسا نہ ہو مر جاؤں میں حسرت ہی حسرت میں
جو لینا ہو تو لے لو سب سے پہلے امتحاں میرا

جاوید لکھنوی




خاک اڑ کے ہماری ترے کوچہ میں پہنچتی
تقدیر تھی یہ بھی کہ ہوا بھی نہ چلی آج

جاوید لکھنوی




سب خط تمام کر چکے پڑھ پڑھ کے شوق سے
واں تھم گئے جہاں پہ مرا نام آ گیا

جاوید لکھنوی




شب وصل کیا جانے کیا یاد آیا
وہ کچھ آپ ہی آپ شرما رہے ہیں

جاوید لکھنوی




صورت نہ یوں دکھائے انہیں بار بار چاند
پیدا کرے حسینوں میں کچھ اعتبار چاند

جاوید لکھنوی




تم دیئے جاؤ یوں ہی ہم کو ہوا دامن کی
ہم سے بے ہوش نہیں ہوش میں آنے والے

جاوید لکھنوی




تم پاس جو آئے کھو گئے ہم
جب تم نہ ملے تو جستجو کی

جاوید لکھنوی