EN हिंदी
جاوید لکھنوی شیاری | شیح شیری

جاوید لکھنوی شیر

13 شیر

تمہیں ہے نشہ جوانی کا ہم میں غفلت عشق
نہ اختیار میں تم ہو نہ اختیار میں ہم

جاوید لکھنوی




امید کا برا ہو سمجھا کہ آپ آئے
بے وجہ شب کو ہل کر زنجیر در نے مارا

جاوید لکھنوی




ان کو تو سہل ہے وہ غیر کے گھر جائیں گے
ہم جو اس در سے اٹھیں گے تو کدھر جائیں گے

جاوید لکھنوی




یہ اک بوسے پہ اتنی بحث یہ زیبا نہیں تم کو
نہیں ہے یاد مجھ کو خیر اچھا لے لیا ہوگا

جاوید لکھنوی