اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس
ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں
جگن ناتھ آزادؔ
بہار آئی ہے اور میری نگاہیں کانپ اٹھیں ہیں
یہی تیور تھے موسم کے جب اجڑا تھا چمن اپنا
جگن ناتھ آزادؔ
بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا
بتا اے پیر مے خانہ یہ مے خانوں پہ کیا گزری
جگن ناتھ آزادؔ
چلتے رہے ہم تند ہواؤں کے مقابل
آزادؔ چراغ تہ داماں نہ رہے ہم
جگن ناتھ آزادؔ
ڈھونڈھنے پر بھی نہ ملتا تھا مجھے اپنا وجود
میں تلاش دوست میں یوں بے نشاں تھا دوستو
جگن ناتھ آزادؔ
ہم نے برا بھلا ہی سہی کام تو کیا
تم کو تو اعتراض ہی کرنے کا شوق تھا
جگن ناتھ آزادؔ
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
جگن ناتھ آزادؔ
اک بار اگر قفس کی ہوا راس آ گئی
اے خود فریب پھر ہوس بال و پر کہاں
جگن ناتھ آزادؔ
اس سے زیادہ دور جنوں کی خبر نہیں
کچھ بے خبر سے آپ تھے کچھ بے خبر سے ہم
جگن ناتھ آزادؔ