EN हिंदी
اندر سرازی شیاری | شیح شیری

اندر سرازی شیر

15 شیر

اب کسی کام کے نہیں یہ رہے
دل وفا عشق اور تنہائی

اندر سرازی




اور تو کوئی تھا نہیں شاید
رات کو اٹھ کے میں ہی چیخا تھا

اندر سرازی




بڑی مشکل سے بہلایا تھا خود کو
اچانک یاد تیری آ گئی پھر

اندر سرازی




دل کے خوں سے بھی سینچ کر دیکھا
پیڑ کیوں یہ ہرا نہیں ہوتا

اندر سرازی




دکھ اداسی ملال غم کے سوا
اور بھی ہے کوئی مکان میں کیا

اندر سرازی




اک عجب شور بپا ہے اندر
پھر سے دل ٹوٹ رہا ہے شاید

اندر سرازی




جس کا ڈر تھا وہی ہوا یارو
وہ فقط ہم سے ہی خفا نکلا

اندر سرازی




جو ملا توڑتا گیا اس کو
دل لگا تھا مرا ہزاروں سے

اندر سرازی




خوب تھی اب مگر بدل سی گئی
تیرے اس شہر کی یہ تنہائی

اندر سرازی