اپنی غربت کی کہانی ہم سنائیں کس طرح
رات پھر بچہ ہمارا روتے روتے سو گیا
عبرت مچھلی شہری
جب آ جاتی ہے دنیا گھوم پھر کر اپنے مرکز پر
تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے
عبرت مچھلی شہری
کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہو نہ سکا
کہیں وعدے بھی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں
عبرت مچھلی شہری
سنا ہے ڈوب گئی بے حسی کے دریا میں
وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا
عبرت مچھلی شہری
وہ یوں ثبوت عروج و زوال دیتا تھا
اٹھا کے ہاتھ میں پتھر اچھال دیتا تھا
عبرت مچھلی شہری
زمیں کے جسم کو ٹکڑوں میں بانٹنے والو
کبھی یہ غور کرو کائنات کس کی ہے
عبرت مچھلی شہری
زندگی کم پڑھے پردیسی کا خط ہے عبرتؔ
یہ کسی طرح پڑھا جائے نہ سمجھا جائے
عبرت مچھلی شہری