آج زنداں میں اسے بھی لے گئے
جو کبھی اک لفظ تک بولا نہیں
ابراہیم ہوش
ان ہزاروں میں اور آپ، یہ کیا؟
آپ، جو ایک تھے ہزاروں میں
ابراہیم ہوش
جو چپ لگاؤں تو صحرا کی خامشی جاگے
جو مسکراؤں تو آزردگی بھی شرمائے
ابراہیم ہوش
کرتا ہوں ایک خواب کے مبہم نقوش یاد
جب سے کھلی ہے آنکھ اسی مشغلے میں ہوں
ابراہیم ہوش
لفظوں سے بنا انساں لفظوں ہی میں رہتا ہے
لفظوں سے سنورتا ہے لفظوں سے بگڑتا ہے
ابراہیم ہوش
مری نظر میں ہے انجام اس تعاقب کا
جہاں بھی دوستی جاتی ہے دشمنی جائے
ابراہیم ہوش
روتے روتے مرے ہنسنے پہ تعجب نہ کرو
ہے وہی چیز مگر دوسرے انداز میں ہے
ابراہیم ہوش
طے کر کے دل کا زینہ وہ اک قطرہ خون کا
پلکوں کی چھت تک آیا تو لیکن گرا نہیں
ابراہیم ہوش
یادوں نے لے لیا مجھے اپنے حصار میں
میرا وجود حافظہ بن کر سکڑ گیا
ابراہیم ہوش