اے چارہ گرو پاس تمہارے نہ ملے گی
بیمار محبت کی دوا اور ہی کچھ ہے
اصغر ویلوری
دنیا سے ختم ہو گیا انسان کا وجود
رہنا پڑا ہے ہم کو درندوں کے درمیاں
اصغر ویلوری
جتنا رونا تھا رو چکے آدم
اور روئے گا آدمی کب تک
اصغر ویلوری
کھلنا ہر ایک پھول کا اصغرؔ ہے معجزہ
مرجھاتی ہے کلی بھی بہاروں کے درمیاں
اصغر ویلوری
لوگ اچھوں کو بھی کس دل سے برا کہتے ہیں
ہم کو کہنے میں بروں کو بھی برا لگتا ہے
اصغر ویلوری
مجھ کو غم کا نہ کبھی درد کا احساس رہا
ہر خوشی پاس تھی جب تک تو مرے پاس رہا
اصغر ویلوری
پڑھتے تھے کتابوں میں قیامت کا سماں
نیپال میں کچھ اس کا نمونہ دیکھا
اصغر ویلوری
روشنی جب سے مجھے چھوڑ گئی
شمع روتی ہے سرہانے میرے
اصغر ویلوری
شکار اپنی انا کا ہے آج کا انساں
جسے بھی دیکھیے تنہا دکھائی دیتا ہے
اصغر ویلوری