EN हिंदी
آنس معین شیاری | شیح شیری

آنس معین شیر

30 شیر

آج ذرا سی دیر کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا تھا
آج مرا اور اک وحشی کا ساتھ رہا پل دو پل کا

آنس معین




آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصار جسم
کب تک اسیر خوشبو رہے گی گلاب میں

آنس معین




عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے

آنس معین




اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنسؔ
باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے

آنس معین




انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

آنس معین




بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری
میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

آنس معین




بکھر کے پھول فضاؤں میں باس چھوڑ گیا
تمام رنگ یہیں آس پاس چھوڑ گیا

آنس معین




درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے
دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا

آنس معین




گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو
وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں

آنس معین