EN हिंदी
آنس معین شیاری | شیح شیری

آنس معین شیر

30 شیر

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا

آنس معین




گونجتا ہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکان ہو جیسے

آنس معین




گیا تھا مانگنے خوشبو میں پھول سے لیکن
پھٹے لباس میں وہ بھی گدا لگا مجھ کو

آنس معین




گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں
وقت سے پہلے دھوپ سروں پہ آ پہنچی

آنس معین




گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو
وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں

آنس معین




درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے
دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا

آنس معین




بکھر کے پھول فضاؤں میں باس چھوڑ گیا
تمام رنگ یہیں آس پاس چھوڑ گیا

آنس معین




بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری
میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

آنس معین




انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

آنس معین