آج اندھیرا مری نس نس میں اتر جائے گا
آنکھیں بجھ جائیں گی بجھ جائیں گے احساس و شعور
اور یہ صدیوں سے جلتا سا سلگتا سا وجود
اس سے پہلے کہ سحر ماتھے پہ شبنم چھڑکے
اس سے پہلے کہ مری بیٹی کے وہ پھول سے ہاتھ
گرم رخسار کو ٹھنڈک بخشیں
اس سے پہلے کہ مرے بیٹے کا مضبوط بدن
تن مفلوج میں شکتی بھر دے
اس سے پہلے کہ مری بیوی کے ہونٹ
میرے ہونٹوں کی تپش پی جائیں
راکھ ہو جائے گا جلتے جلتے
اور پھر راکھ بکھر جائے گی
زندگی کہنے کو بے مایہ سہی
غم کا سرمایہ سہی
میں نے اس کے لیے کیا کیا نہ کیا
کبھی آسانی سے اک سانس بھی یم راج کو اپنا نہ دیا
آج سے پہلے بہت پہلے
اسی آنگن میں
دھوپ بھرے دامن میں
میں کھڑا تھا مرے تلووں سے دھواں اٹھتا تھا
ایک بے نام سا بے رنگ سا خوف
کچے احساس پہ چھایا تھا کہ جل جاؤں گا
میں پگھل جاؤں گا
اور پگھل کر مرا کمزور سا ''میں''
قطرہ قطرہ مرے ماتھے سے ٹپک جائے گا
رو رہا تھا مگر اشکوں کے بغیر
چیختا تھا مگر آواز نہ تھی
موت لہراتی تھی سو شکلوں میں
میں نے ہر شکل کو گھبرا کے خدا مان لیا
کاٹ کے رکھ دیے صندل کے پر اسرار درخت
اور پتھر سے نکالا شعلہ
اور روشن کیا اپنے سے بڑا ایک الاؤ
جانور ذبح کیے اتنے کہ خوں کی لہریں
پاؤں سے اٹھ کے کمر تک آئیں
اور کمر سے مرے سر تک آئیں
سوم رس میں نے پیا
رات دن رقص کیا
ناچتے ناچتے تلوے مرے خوں دینے لگے
مرے اعضا کی تھکن
بن گئی کانپتے ہونٹوں پہ بھجن
ہڈیاں میری چٹخنے لگیں ایندھن کی طرح
منتر ہونٹوں سے ٹپکنے لگے روغن کی طرح
''اگنی ماتا مری اگنی ماتا
سوکھی لکڑی کے یہ بھاری کندے
جو تری بھینٹ کو لے آیا ہوں
ان کو سویکار کر اور ایسے دھدھک
کہ مچلتے شعلے کھینچ لیں جوش میں
سورج کی سنہری زلفیں
آگ میں آگ ملے
جو امر کر دے مجھے
ایسا کوئی راگ ملے''
اگنی ماں سے بھی نہ جینے کی سند جب پائی
زندگی کے نئے امکان نے لی انگڑائی
اور کانوں میں کہیں دور سے آواز آئی
بدھم شرنم گچھامی
دھمم شرنم گچھامی
سنگھم شرنم گچھامی
چار ابرو کا صفایا کر کے
بے سلے وستر سے ڈھانپا یہ بدن
پونچھ کے پتنی کے ماتھے سے دمکتی بندیا
سوتے بچوں کو بنا پیار کیے
چل پڑا ہاتھ میں کشکول لیے
چاہتا تھا کہیں بھکشا ہی میں جیون مل جائے
جو کبھی بند نہ ہو دل کو وہ دھڑکن مل جائے
مجھ کو بھکشا میں مگر زہر ملا
ہونٹ تھرانے لگے جیسے کرے کوئی گلہ
جھک کے سولی سے اسی وقت کسی نے یہ کہا
تیرے اک گال پہ جس پل کوئی تھپڑ مارے
دوسرا گال بھی آگے کر دے
تیری دنیا میں بہت ہنسا ہے
اس کے سینے میں اہنسا بھر دے
کہ یہ جینے کا طریقہ بھی ہے انداز بھی ہے
تیری آواز بھی ہے میری آواز بھی ہے
میں اٹھا جس کو اہنسا کا سبق سکھلانے
مجھ کو لٹکا دیا سولی پہ اسی دنیا نے
آ رہا تھا میں کئی کوچوں سے ٹھوکر کھا کر
ایک آواز نے روکا مجھ کو
کسی مینار سے نیچے آ کر
اللہ اکبر اللہ اکبر
ہوا دل کو یہ گماں
کہ یہ پرجوش اذاں
موت سے دے گی اماں
پھر تو پہنچا میں جہاں
میں نے دہرائی کچھ ایسے یہ اذاں
گونج اٹھا سارا جہاں
اللہ اکبر اللہ اکبر
اسی آواز میں اک اور بھی گونجا اعلان
کل من علیہا فان
اک طرف ڈھل گیا خورشید جہاں تاب کا سر
ہوا فالج کا اثر
پھٹ گئی نس کوئی شریانوں میں خوں جم سا گیا
ہو گیا زخمی دماغ
ایسا لگتا تھا کہ بجھ جائے گا جلتا ہے جو صدیوں سے چراغ
آج اندھیرا مری نس نس میں اتر جائے گا
یہ سمندر جو بڑی دیر سے طوفانی تھا
ایسا تڑپا کہ مرے کمرے کے اندر آیا
آتے آتے وہ مرے واسطے امرت لایا
اور لہرا کے کہا
شیو نے یہ بھجوایا ہے لو پیو اور
آج شیو علم ہے امرت ہے عمل
اب وہ آساں ہے جو دشوار تھا کل
رات جو موت کا پیغام لیے آئی تھی
بیوی بچوں نے مرے
اس کو کھڑکی سے پرے پھینک دیا
اور جو وہ زہر کا اک جام لیے آئی تھی
اس نے وہ خود ہی پیا
صبح اتری جو سمندر میں نہانے کے لیے
رات کی لاش ملی پانی میں
نظم
زندگی
کیفی اعظمی