تب وہ بے ساختہ رو پڑے سینہ کوبی کرے
جانے والے کا ماتم کرے
بین کرتے پھرے
آخری پات کے سوگ میں
تلملاتی رہے
ذات کے روگ میں
پھر وہ رت آئے جب
چکنی کائی زدہ سی چٹانوں پہ دیکھوں میں خود کو
میں آنکھوں کے پانی کو روکوں مگر پانی کیسے رکے
تب میں چیخوں بلاؤں اسے
گہرے نیلے سمندر کی تہہ میں وہ ہوگی کہیں کون جانے
مگر وہ بلاوے کو سن کر سمندر کی تہہ سے ابھر کر
مرے پاس آئے مجھے چھو کے دیکھے
کہے تم کہاں تھے
خدارا بتاؤ کہ تم اتنا عرصہ کہاں تھے
مجھے خود سے لپٹائے مہکی ہوئی گود میں لے کے جھولا جھلائے
کوئی گیت گائے جو سیال چاندی کا چشمہ سا بن کر بہے
دھند بن کر اڑے
مجھ کو سورج کی گندی تمازت سے محفوظ کر دے
کہے اب تو جانے نہ دوں گی تمہیں
اب میں جانے نہ دوں گی تمہیں
اور میں
اپنے بوجھل پپوٹوں کو میچے
کسی نرم جھونکے کے قدموں کی آہٹ سنوں
تنگ ہوتے ہوئے دودھیا بازوؤں کے
ملائم سے حلقے میں سونے لگوں
کاش سونے لگوں
کاش میں سو سکوں
نظم
ذات کے روگ میں
وزیر آغا