تم چمن زاد ہو فطرت کے قریں رہتے ہو
دل یہ کہتا ہے کہ تم محرم اسرار بھی ہو
تمہیں فطرت کی بہاروں کی قسم
یہ تماشا گہ عالم کیا ہے
نور خورشید کا جاں سوز جہاں تاب جمال
آسمانوں پہ ستاروں کا سبک کام خرام
یہ گرجتے ہوئے بادل
یہ سمندر کا خروش
یہ پرندوں کے سہانے نغمے
کہیں بڑھتی ہوئی عظمت کہیں لٹتا ہوا حسن
بے سبب بخل فراواں بخشی
قحط آلام مصائب کے پہاڑ
عیش کے خسروی و طنطنۂ فغفوری
کہیں پرویز کے حیلے کہیں چنگیز کے ظلم
کہیں شبیری و ابراہیمی
راز ہی راز ہے حیرت کدۂ بزم نمود
تم چمن زاد ہو فطرت کے قریں رہتے ہو
یہ تماشا گہ عالم کیا ہے
نور مہتاب کی چادر لے کر
گھاس سوتی ہی رہی
پھول لب بند رہے
پیڑ رہے محو سکوت
تند رو باد شمالی کا تریڑا آیا
پھول تیورا سے گئے
پیڑ ہوئے سر بہ سجود
گھاس نے چادر مہتاب میں کروٹ بدلی
یہ تماشا گہ عالم کیا ہے

نظم
یہ تماشا گہ عالم کیا ہے
تصدق حسین خالد