EN हिंदी
یہ سجیلی مورتی | شیح شیری
ye sajili murti

نظم

یہ سجیلی مورتی

رفیق سندیلوی

;

اے ہوا
پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا

صحن میں کس نے قدم رکھا تھا
چپکے سے

یہاں سے کون مٹی لے گیا تھا
وقت کی تھالی میں

کس نے لا کے رکھ دی
جھلملاتی لو کے آگے

رقص کرتی
یہ سجیلی مورتی

جس کے نقوش جسم
روشن ہو رہے ہیں

ویشیا کے ہونٹ
فربہ پاؤں جیسے اک گرھستن کے

خمیری پیٹ میں
مخمل کی لہریں

نوری و ناری
سبک اندام لہروں میں

بھنور اک گول سا
پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا

اے ہوا
تو جانتی ہے

راز سارا
دو الگ طرزوں کی مٹی

ایک برتن میں ملا کر
گوندھنے کا!!