مری زندگی کی لکھی ہوئی
مرے طاق دل پہ سجی ہوئی
وہ کتاب اب بھی ہے منتظر
جسے میں کبھی نہیں پڑھ سکی
وہ تمام باب سبھی ورق
ہیں ابھی تلک بھی جڑے ہوئے
مرا عہد دید بھی آج تک
انہیں وہ جدائی نہ دے سکا
جو ہر اک کتاب کی روح ہے
مجھے خوف ہے کہ کتاب میں
مرے روز و شب کی اذیتیں
وہ ندامتیں وہ ملامتیں
کسی حاشیے پہ رقم نہ ہوں
میں فریب خوردۂ برتری
میں اسیر حلقۂ بزدلی
وہ کتاب کیسے پڑھوں گی میں؟
نظم
وہ کتاب
زہرا نگاہ