دشت گرم و سرد میں یہ بے دیاروں کا ہجوم
بے خبر ماحول سے
چپ چاپ
خود سے ہم کلام
چل رہا ہے سر جھکائے اس طرح
جس طرح مرگھٹ پہ روحوں کا خرام
زرد چہروں پر ہے صدیوں کی تھکن
سانس لیتے ہیں کچھ ایسے
جیسے ہوتی ہو چبھن
ہونٹ پر غمگیں تبسم اور سینے میں بکا
ہر قدم پر ہڈیوں کے کڑکڑانے کی صدا
ان کی آنکھیں
جن پہ حکم دیدۂ بینا لگاتے ہیں
دیوتاؤں کی بصیرت کانپ جائے
ذہن و دل کا فاصلہ طے کرتے کرتے ہانپ جائے
وسعت ارض و سما اک دیدۂ حیران ہے
اف! یہ میلا کس قدر ویران ہے!!
نظم
ویرانۂ خیال
افتخار اعظمی