کون پڑھ سکتا ہے باطن کو
کون چھو سکتا ہے آنکھوں کی ویرانی کو
کون دیواروں پہ مرتی دھوپ کو اپنے اندر اتار سکتا ہے
جب حواس کوڑھ زدہ ہو جائیں
تب جدائی کے زخم سے من اجنبی ہو جاتا ہے
وہ میری آواز کے لمس سے بہت دور ہے
وہ کون سی بنجر زمین ہے
جہاں میرے کسی احساس کسی کیفیت کی رسائی نہیں ہوتی
بے تحاشا چیخ میرے اندر جمع ہے
محبت کس کس طرح سے مذاق بنتی ہے
خدا نے ہر بار میرے دل کو آزمایا
یہ میری خود کلامی ہے جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے
ورنہ مجھے مارنے والوں نے
میرا امن خالی کر دیا تھا
اس نے خاموشی کو اپنا ہتھیار بنایا
اور اس ہتھیار سے
فریاد کرنے والے کی روح کو زخمی کر دیا
وہ جانتا ہے
تشدد کس کس طرح سے کیا جا سکتا ہے
وہ بے زار ہو گیا اس آواز سے
وہ بے زار ہو گیا اس آواز سے
جو روک رہی تھی اسے اندھیروں میں جانے سے
افسوس
وہ کھو گیا
اسے تاریکی نگل چکی ہے
نظم
اس کے نام جسے تاریکی نگل چکی
انجلا ہمیش