تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں
تم اپنے پیچھے چھپے ہوئے ہو
بغور دیکھوں تمہیں تو مجھ کو
شرارتوں پر ابھارتی ہیں
تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں
لہو کو شعلہ بدست کر دیں
یہ پتھروں کو بھی مست کر دیں
حیات کی سوکھتی رتوں میں
بہار کا بند و بست کر دیں
کبھی گلابی کبھی سنہری
سمندروں سے زیادہ گہری
تہوں میں اپنی اتارتی ہیں
تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں
حیا بھی ہے ان میں شوخیاں بھی
یہ راز بھی اپنی ترجماں بھی
ریاست حسن و عشق کی ہیں
رعایا بھی اور حکمراں بھی
وہ کھو گیا یہ ملی ہیں جس کو
یہ جیتنا چاہتی ہے جس کو
اسی سے در اصل ہارتی ہیں
تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں
کشش کا وہ دائرہ بنائیں
حواس جس سے نکل نہ پائیں
میں اپنے اندر بکھر سا جاؤں
سمیٹنے بھی نہ مجھ کو آئیں
عجب ہے انجان پن بھی ان کا
میں ان کا اور میرا فن بھی ان کا
خموش رہ کر پکارتی ہیں
تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں
نظم
تمہاری آنکھیں شرارتی ہیں
مظفر وارثی