EN हिंदी
تم بھی | شیح شیری
tum bhi

نظم

تم بھی

ادا جعفری

;

مدتوں بعد آئی ہو تم
اور تمہیں اتنی فرصت کہاں

ان کہے حرف بھی سن سکو
آرزو کی وہ تحریر بھی پڑھ سکو

جو ابھی تک لکھی ہی نہیں جا سکی
اتنی مہلت کہاں

میرے باغوں میں جو کھل نہ پائے ابھی
ان شگوفوں کی باتیں کرو

درد ہی بانٹ لو
میرے کن ماہتابوں سے تم مل سکیں

کتنی آنکھوں کے خوابوں سے تم مل سکیں
ہاں تمہاری نگاہ ستائش نے

گھر کی سب آرائشیں دیکھ لیں
تن کی آسائشیں دیکھ لیں

میرے دل میں جو پیکاں ترازو ہوئے
تم کو بھی

لالہ و گل کے بے ساختہ استعارے لگے