وہ اک لمحہ جس کی تلاش میں
میں نے اپنے ارض و سما کی
پر اسرار کشش سے نکل کر
ایک خیال افروز خلا میں جست لگا دی
اور اپنے محور سے بچھڑ کر
اس بے چہرہ کاہکشاں کے
دوسرے سیاروں کے اثر میں
گردش کرنے اور بھٹکتے رہنے میں
اک عمر گنوا دی
وہ لمحہ اک جگنو بن کر
جلتا بجھتا
اب بھی مری امیدوں کی
خوش فہم نگاہوں کی زد پر ہے
روشنی کی رفتار سے میں مصروف سفر ہوں
پھر بھی مری روشن آنکھوں سے
اس سیماب صفت جگنو کا
فاصلہ ایک ہی حد پر ہے
اور اب شاید
وقت تو ساکت ہونے کی سرحد پر ہے
میرے وجود پہ
اک بے نام تھکن طاری ہے
لیکن پھر بھی
میرا تعاقب جاری ہے
نظم
طفیلی سیارہ
سرشار صدیقی