EN हिंदी
طلسمی غار کا دروازہ | شیح شیری
tilismi ghaar ka darwaza

نظم

طلسمی غار کا دروازہ

عادل منصوری

;

روز آدھی رات کو
اک طلسمی غار کے

خفیہ دروازے کے سینے میں جنم لیتی ہیں غیبی دھڑکنیں
غار کی گہرائی میں

چلتے ہوئے سنگیت کے قدموں کی چاپ
رات کی اندھی ہوا کا ہاتھ پکڑے دور تک جاتی ہے ساتھ

ایک زہری سانپ
کھنچ آتا ہے سر کی چاہ میں

لاکھ خطرے ہیں ذرا سی راہ میں
بند دروازے کے پاس

نرم بھینی گھاس میں
بیٹھ جاتا ہے وہ کنڈلی مار کے

اور اپنا پھن اٹھائے
جھومتا رہتا ہے سر کی تان پر

کھیلتا رہتا ہے اپنی جان پر
ٹوٹتا ہے جس گھڑی سر کا بہاؤ

سانپ کو آتا ہے تاؤ
بند دروازے پہ غصہ میں پٹکتا ہے وہ سر

اور ڈس لیتا ہے اس کو اپنا زہری پھن اٹھا کر
صبح ہونے تک تو مر جاتا ہے دروازہ

مگر
روز آدھی رات کو