ذکر نہیں یہ فرزانوں کا
قصہ ہے اک دیوانوں کا
ماسکو، پیرس اور لندن میں
دیکھے میں نے تین شرابی
سرخ تھیں آنکھیں روح گلابی
نشۂ مے کا تاج جبیں پر
فکر فلک پر پاؤں زمیں پر
بے خبر اپنی لغزش پا سے
با خبر اپنے عہد وفا سے
دختر رز کے در کے بھکاری
اپنے قلب و نظر کے شکاری
پی لینے کے بعد بھی پیاسے
جام کی صورت چھلکے چھلکے
ابر کی صورت ہلکے ہلکے
مستی کی تلوار اٹھائے
فصل گل چہروں پہ کھلائے
قدم قدم پر بہک رہے تھے
مہک رہے تھے چہک رہے تھے
ایک نے شاید وہسکی پی تھی
دوسرے نے شمپین کی بوتل
تیسرے نے وہ پگھلی چاندی
وودکا کی سیال حسینہ
وہ شے جس کی تابش رخ سے
شیشے کو آ جائے پسینہ
میں نے ان نازک لمحوں میں
روح بشر کو عریاں دیکھا
عہد خزاں کا رنگ پریدہ
رنگ عہد بہاراں دیکھا
ظاہر دیکھا پنہاں دیکھا
ذکر نہیں یہ فرزانوں کا
قصہ ہے اک دیوانوں کا
رات نے اپنی کالی زباں سے
خون شفق کے دل کا چاٹا
چار طرف خاموشی چھائی
پھیل گیا ہر سو سناٹا
جنت پیرس کے پہلو میں
سین کی موجوں کو نیند آئی
ڈسنے لگی مجھ کو تنہائی
مے خانے میں جا کر میں نے
آگ سے دل کی پیاس بجھائی
رند بہت تھے لیکن وہ سب
اپنے نشے میں کھوئے ہوئے تھے
جاگ رہی تھیں آنکھیں لیکن
دل تو سب کے سوئے ہوئے تھے
کوئی نہیں تھا ان میں میرا
میں یہ بیٹھا سوچ رہا تھا
کب یہ ظالم رات کٹے گی
کب واپس آئے گا سویرا
اتنے میں اک قامت رعنا
قدم قدم پر پھول کھلاتا
ہونٹوں سے معصوم تبسم
آنکھوں سے بجلی برساتا
مے خانے میں جھوم کے آیا
ناز و ادا کے دام بچھاتا
عیش و طرب کی محبوبائیں
نشۂ مے کی دوشیزائیں
رہ گئیں اپنی آنکھیں مل کر
آئی قیامت چال میں ڈھل کر
سکوں کی جھنکار پہ گاتی
سونے کی تلوار نچاتی
اپنے لہو میں آپ نہاتی
اس نازک لمحے میں میں نے
حرص و ہوس کو رقصاں دیکھا
زد میں نظام زرداری کی
روح بشر کو لرزاں دیکھا
مجبوری کو عریاں دیکھا
ذکر نہیں یہ فرزانوں کا
قصہ ہے اک دیوانوں کا
گہرے کہرے کی لہروں میں
سارا لندن ڈوب گیا تھا
لمحوں کی روشن آنکھوں میں
شام کا کاجل پھیل چکا تھا
رات کی نیلی دیوی جاگی
دن کے دیوتا کو نیند آئی
ڈسنے لگی مجھ کو تنہائی
مے خانے میں جا کر میں نے
آگ سے دل کی پیاس بجھائی
اس محفل میں سب ہی کچھ تھا
ساقی بھی اور پیر مغاں بھی
صہبا کی آغوش کے پالے
طفلک مستی، رند جواں بھی
غازہ و رنگ کی معشوقائیں
جن کی لطافت شب بھر کی تھی
عطر اور ریشم کی مینائیں
جن کی صہبا لب بھر کی تھی
آج کا سکھ تھا، کل کا دکھ تھا
آج کی آشا، کل کی نراشا
ہنس ہنس کر غم دیکھ رہے تھے
ان جھوٹی خوشیوں کا تماشا
نا امیدی کے کاندھوں پر
رکھا تھا امید کا لاشہ
آج وہ لے لیں، جو مل جائے
کل کیا ہوگا کون بتائے
آج دلوں کی شمع جلائیں
کل شاید یہ رات نہ آئے
آج تو مے کی کشتی کھے لیں
کل یہ سفینہ ڈوب نہ جائے
آج لبوں کا بوسہ لے لیں
موت کا بوسہ کل لینا ہے
آج دلوں کا قرض چکا لیں
کل تو سب کچھ دے دینا ہے
اس نازک لمحے میں میں نے
روح بشر کو ویراں دیکھا
ایٹم بم کے خوف کے آگے
عقل و خرد کو حیراں دیکھا
سارے جہاں کو لرزاں دیکھا
ذکر نہیں یہ فرزانوں کا
قصہ ہے اک دیوانوں کا
دوش ہوا پر تاریکی نے
زلفوں کے خم کھول دیے تھے
ماسکو کی خاموش فضا میں
رات کی آنکھوں کے کاجل نے
کتنے جادو گھول دیے تھے
سرخ و سیہ مخمل کے اوپر
شام کے سایوں کو نیند آئی
ڈسنے لگی مجھ کو تنہائی
مے خانے میں جا کر میں نے
آگ سے دل کی پیاس بجھائی
خوش فکروں کا ابر بہاراں
جھوم پڑا تھا مے خانوں پر
بادہ کشوں کا رنگیں جھرمٹ
ٹوٹ پڑا تھا پیمانوں پر
ساز کی لے میں تیزی آئی
نشۂ مے کی انگڑائی نے
اپنا حسیں پرچم لہرایا
چپہ چپہ ذرہ ذرہ
قطرہ قطرہ رقص میں آیا
نغموں کے بے تاب بھنور کو
لب کے ٹکڑے چوم رہے تھے
رقص کے بیکل گردابوں میں
جسم کے طوفاں گھوم رہے تھے
چہروں کی روشن قندیلیں
بانہوں کی دلکش محرابیں
راگ نظر کی خاموشی کے
جنبش مژگاں کی مضرابیں
اس گردش میں درہم برہم
سارا نظام شمس و قمر تھا
پگھل گئے تھے چاند اور سورج
محفل گل میں رقص شرر تھا
رات کی پیشانی سے جیسے
تاروں کا جھومر ٹوٹ گیا ہو
پیر فلک کے ہاتھ سے جیسے
طشت زمرد چھوٹ گیا ہو
ہیرے، نیلم، لعل اور موتی
خاک پہ جیسے بکھر رہے ہیں
جیسے کسی کے برہم گیسو
بکھر بکھر کر سنور رہے ہوں
نشۂ مے کے سر پر لیکن
عقل و خرد کا تاج دھرا تھا
دور سے بیٹھا بیٹھا مجھ کو
ایک شرابی دیکھ رہا تھا
اس نے ہوا میں ہاتھ سے اپنے
ننھا سا اک بوسہ پھینکا
اک تتلی سی اڑتی آئی
میرے دل کے پھول کے اوپر
کچھ کانپی اور کچھ منڈلائی
بیٹھ گئی پر جوڑ کے دونوں
پیار کے رس کو چوس کے اٹھی
اور مری جانب سے ہوا میں
بوسہ بن کر پھر لہرائی
کچھ شرمائی، کچھ اترائی
اور شرابی میز سے اٹھ کر
رقص کے حلقوں سے ٹکراتا
کشتی کی صورت چکراتا
ہاتھ میں اپنا جام اٹھائے
میری جانب جھومتا آیا
خنداں خنداں، نازاں نازاں
رقصاں رقصاں، پیچاں پیچاں
موج ہوا کو چومتا آیا
میری زباں تھی اردو، ہندی
اس کی زباں تھی روسی لیکن
ایک زباں تھی ایسی بھی جو
دونوں زبانوں سے پیاری تھی
دونوں جس کو بول رہے تھے
چند اشارے چند تبسم
نظروں کا خاموش تکلم
حرف یہی تھے، لفظ یہی تھے
شہد جو دل میں گھول رہے تھے
ہند کی مستی، روس کا نقشہ
دونوں نے اک جام بنایا
اور ہوا میں اس کو نچایا
ساتھ ہمارے سب رندوں نے
اپنے دلوں کو ہاتھ میں لے کر
میرے وطن کا جام اٹھایا
اب جو میں نے مڑ کر دیکھا
جشن نہ تھا یہ دیوانوں کا
گرد ہمارے امن کی دیوی
گیت کی حوریں ساز کی پریاں
نغمے اور آواز کی لڑیاں
پیرس کی بد بخت حسینہ
مغرور امریکہ کا سپاہی
لندن کا بدمست شرابی
عیش و طرب کی محبوبائیں
نشۂ مے کی دوشیزائیں
غازہ و رنگ کی معشوقائیں
عطر اور ریشم کی مینائیں
حافظؔ اور غالبؔ کی غزلیں
پشکنؔ اور ٹیگورؔ کی نظمیں
کتنے ناز اور کتنی ادائیں
کتنی شیریں اور لیلائیں
کتنے رانجھے، کتنی ہیریں
کتنے بت، کتنی تصویریں
امن کی کوشش اور تدبیریں
مشرق و مغرب کی تقدیریں
حلقہ باندھے ناچ رہی تھیں
میں نے اس نازک لمحے میں
روح بشر کو نازاں دیکھا
نشہ و رقص کے پیچ و خم میں
پیار کا جذبہ رقصاں دیکھا
سارے جہاں کو خنداں دیکھا
ذکر نہیں یہ فرزانوں کا
قصہ ہے اک دیوانوں کا
نظم
تین شرابی
علی سردار جعفری