یزید نقشۂ جور و جفا بناتا ہے
حسین اس میں خط کربلا بناتا ہے
یزید موسم عصیاں کا لا علاج مرض
حسین خاک سے خاک شفا بناتا ہے
یزید کاخ کثافت کی ڈولتی بنیاد
حسین حسن کی حیرت سرا بناتا ہے
یزید تیز ہواؤں سے جوڑ توڑ میں گم
حسین سر پہ پہن کے ردا بناتا ہے
یزید لکھتا ہے تاریکیوں کو خط دن بھر
حسین شام سے پہلے دیا بناتا ہے
یزید آج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے
حسین خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے
نظم
تضاد
غلام محمد قاصر