EN हिंदी
تشویش | شیح شیری
tashwish

نظم

تشویش

حسن نعیم

;

مجھ کو تشویش ہے کچھ روز سے میرے محبوب
میرے انداز تفکر کی یہ پر خار روش

تیری حساس طبیعت کو نہ کر دے مجروح
اور تو سمجھے کہ نہیں تجھ میں وہ پہلی سی کشش

اب بھی جلووں میں ہے تخلیق محبت کی سکت
تری باتوں میں ابھی تک ہے فسوں کا انداز

عارض و لب پہ تبسم کا خرام مدہوش
اب بھی دیتا ہے تخیل کو پیام پرواز

پھر بھی احساس مسرت کا نہ ہو ذہن کو ہوش
گن تو سکتا ہوں، شب ہجر میں تاروں کو مگر

ذہن آوارہ خیالات سے بھر جاتا ہے
اشک مجبور بہاؤں غم جاناں میں مگر

سلسلہ میرے ان اشکوں کا بکھر جاتا ہے
مجھ کو تشویش ہے کچھ روز سے میرے محبوب

مرے انداز تکلم کی یہ بیگانہ روی
تیری حساس طبیعت کو نہ کر دے مجروح

اور تسکیں نہ ہو پھر حسن خود آرا کو کبھی