EN हिंदी
تخلیق | شیح شیری
taKHliq

نظم

تخلیق

کرشن موہن

;

رات زلفوں کی دل آویز شمیم
صحبت شوق کو گرماتی رہی

شاہد شوخ کا پیکر تھا خیال
گرم اعضا کا گداز

لذت غمزہ و ناز
چھڑ گئے ساز کے تار

یوں مچلتی تھیں امنگیں میری
جیسے گردوں پہ ستارے چمکیں

خالق زیست کو اک شرم سی محسوس ہوئی
اک نئے کرب تمنا کا سہارا لے کر

خواب راحت سے اٹھا
اور آمادۂ پیکار ہوا

دشت پیکار میں بڑھتا ہی گیا
بڑھ کے اک چشمۂ سیمیں نے قدم چوم لیے

نور سیال سے مانوس فضا
دل بے تاب کو راس آنے لگی

جسم آسودہ ہوا
عرش پر ایک ستارہ ٹوٹا

اک نئی زیست کی تخلیق ہوئی