زندگی میں ترے دروازے پر
اک بھکاری کی طرح آیا تھا
اپنے دامن کو بنا کر کشکول
تیری ہر راہ پہ پھیلایا تھا
ایک مرحوم کرن کی خاطر
مجھ کو تھوڑی سی ضیا بھی نہ ملی
دم بہ دم ڈوبتے سیارے کو
اپنے مرکز سے صدا بھی نہ ملی
دفعتاً ایک دھماکے کے ساتھ
کچے دھاگوں کے سرے چھوٹ گئے
انگلیاں چھل گئیں ارمانوں کی
یک بہ یک تار نفس ٹوٹ گئے
اور پھر ایک گھنا سناٹا
اور پھر رسم کہن کے گیسو
کچھ دلاسے کی زبانی باتیں
کچھ دکھاوے کے پرانے آنسو
2
کہر میں ڈوب گئی تھیں شمعیں
وقت ناراض تھا قسمت کی طرح
رات کے رخ پہ تھے زخموں کے نشان
میری مجروح حمیت کی طرح
اک خطرناک کگارے کے قریب
تجھ سے لڑنے کا ارادہ لے کر
میں نے مہروں کو سکھائی شورش
میں نے موجوں کے بگاڑے تیور
تو مگر آئی تو اک لمحے میں
نہ وہ تیور تھے نہ وہ آہیں تھیں
تیرے عارض پہ مرے آنسو تھے
میری گردن میں تری باہیں تھیں
نظم
تجرید
مصطفی زیدی