نیم خوابیدہ بوجھل سبک سر ہوا
شب کی آغوش میں دفعتاً جاگ اٹھی
کسمساتی ہوئی سر اٹھا کے چلی
شب کی آغوش سے سرد بوجھل ہوا
لڑکھڑا کے چلی بے خطر بے حذر
چور نشے میں یک چشم عفریت شب
آنکھ کی سرخ گولائی روشن کئے
ہے ہوا کے تعاقب میں ہر موڑ پر
کون روکے اسے کون ٹوکے اسے
ہیں تضادوں کے آسیب اس شہر میں
نفع و حرص و ہوس کی جبینوں کو بھی
چاند کے روپ میں ڈھالنے کے لیے
دست شب نے دو رویہ عمارات پر
روشنی کی لکیروں سے لکھے ہیں نام
شہر کی شاہراہوں پہ ہیں رقص میں
نیلگوں سرخ پیلے ہرے دائرے
گاہ جلتے ہوئے گاہ بجھتے ہوئے
ہر اندھیرے پہ ہے روشنی کا نقاب
اک ہوا ہے کہ جس کی نگاہوں میں ہے
شہر کے دل کی تاریکیوں کا حساب
شہر کے شب زدہ پیرہن میں کہیں
کہکشاں کی طرح روشنی تو نہیں
پیرہن میں سیاہی کے ہر داغ پر
روشنی کی لکیروں کے پیوند میں
اور اس شہر کے دل کی قندیل پر
روشنی کی لکیروں کے در بند ہیں
نظم
تاریکیوں کا حساب
سحر انصاری