EN हिंदी
سورج کا آتش کدہ | شیح شیری
suraj ka aatish-kada

نظم

سورج کا آتش کدہ

کیف احمد صدیقی

;

سوچتا ہوں
وقت کی گردن پکڑ کر

ریشمی اسکارف کا پھندا لگا کر
کھینچ لوں

اور اتنی زور سے چیخوں
زمیں سے

آسماں تک
صرف میری چیخ ہی کا شور گونجے

وقت کی مرتی ہوئی آواز کوئی سن نہ پائے
سوچتا ہوں

وسعت آفاق میں پرواز کر کے
رات کی آنکھوں میں تاریکی کا پردہ ڈال کر میں

چاند تاروں کو چرا لاؤں زمیں پر
اور تھوڑی دیر

بچوں کی طرح خوش ہو کے کھیلوں
کھیلنے سے بھی جب اپنا دل نہ بہلے

ایک پتھر پر پٹخ کر
ہر کھلونے کو میں چکنا چور کر دوں

سوچتا ہوں
آسماں سے چھین کر

جلتے ہوئے سورج کی تھالی
ایک کشتی کی طرح

گہرے سمندر میں چلاؤں
اور اس پر ساری دنیا کو بٹھا کر

غرق کر دوں
سوچتا ہوں

سوچتے ہی سوچتے
میں خود ہی اک دن

سوچ کے آتش کدہ میں جل نہ جاؤں