اس بیری کی اونچی چوٹی پر وہ سوکھا تنہا پتا
جس کی ہستی کا بیری ہے پت جھڑ کی رت کا ہر جھونکا
کاش مری یہ قسمت ہوتی کاش میں وہ اک پتا ہوتا
ٹوٹ کے جھٹ اس ٹہنی سے گر پڑتا کتنا اچھا ہوتا
گر پڑتا اس بیری والے گھر کے آنگن میں گر پڑتا
یوں ان پازیبوں والے پاؤں کے دامن میں گر پڑتا
جس کو میرے آنسو پوجیں اس گھر کے خاشاک میں مل کر
جس کو میرے سجدے ترسیں اس دوارے کی خاک میں مل کر
اس آنگن کی دھول میں مل کر مٹتا مٹتا مٹ جاتا میں
عمر بھر ان قدموں کو اپنے سینے پر مضطر پاتا میں
ہائے مجھ سے نہ دیکھا جائے آیا ہوا کا جھونکا آیا
ڈالیاں لرزیں ٹہنیاں کانپیں لو وہ سوکھا پتا ٹوٹا
نظم
سوکھا تنہا پتا
مجید امجد