EN हिंदी
سنو | شیح شیری
suno

نظم

سنو

منصورہ احمد

;

سنو
جن کی ہنسی سے اس زمیں پر پھول کھلتے ہوں

جنہیں نغمے پہ اتنی دسترس ہو
کہ پنچھی ان کی لے پر چہچہاتے ہوں

انہیں تو اس طرح چپ چاپ ہو جانا نہیں سجتا
سنو

ساری زمیں گمبھیر چپ اوڑھے ہوئے ساکت کھڑی ہے
تم اتنی ہی کرو اک بار ہنس دو

زمیں کی منجمد سانسوں میں
پھر سے زندگی چلنے لگے گی

پہلے دن سے لوہے کے جوتے پہناؤ
یہی ہوا اور ہوتا آیا

سب نے دیکھا
سرخ سجیلے چہروں والی

اور گدرائے جسموں والی دوشیزائیں
آنگن کی دیوار پکڑ کر چل پاتی تھیں

سوچ رہی ہوں
صدیاں کیسے اتنا پیچھے لوٹ آئی ہیں

چین کی سرحد کیسے میرے گھر آنگن تک آ پہنچی ہے
لوہے کے جوتوں میں جکڑے میرے پاؤں

آنگن کی دہلیز الانگ کے
اپنی دنیا تک جانے سے انکاری ہیں