سو رہی تھیں ندیاں اور جھک گئے تھے برگ و بار
بجھ گیا تھا خاک کی نبضوں میں ہستی کا شرار
چاندنی مدھم سی تھی دریا کی لہریں تھیں خموش
بے خودی کی بزم میں ٹوٹے پڑے تھے ساز ہوش
بھینی بھینی بوئے گل رقص ہوا کچھ بھی نہ تھا
صحن گلشن میں اداسی کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اک حجاب تیرگی تھا دیدۂ بے دار پر
کچھ دھواں سا چھا رہا تھا حسن کے انوار پر
اس دھوئیں میں روح کی تابندگی کھوتے ہوئے
میں نے دیکھا نوع انسانی کو گم ہوتے ہوئے
نظم
سکوت
جوہر نظامی