تمہارا شہر کیسا ہے
وہ سورج جو تمہارے پاس آ کر جگمگاتا ہے
وہ کیسا ہے
وہ چندا جو تمہاری سیج پر تارے سجاتا ہے
وہ کیسا ہے
وہ رستہ جو تمہارے گھر کو جاتا ہے
وہ کیسا ہے
تمہارا شہر کیسا ہے
وہ کرنیں جو تیرا آنگن سجاتی ہیں
وہ کیسی ہیں
ہوائیں جو تجھے چھو کر ستاتی ہیں
وہ کیسی ہیں
وہ راتیں جو تجھے لوری سناتی ہیں
وہ کیسی ہیں
تمہارا شہر کیسا ہے
تمہارے شہر کی جتنی فضائیں جتنے رستے ہیں
وہ کیسے ہیں
تمہارے شہر میں جتنے سجیلے لوگ بستے ہیں
وہ کیسے ہیں
تمہارے شہر کے سب پھول اور تارے جو ہنستے ہیں
وہ کیسے ہیں
تمہارا شہر کیسا ہے
سنا ہے پھول بھی اس شہر میں مرجھائے رہتے ہیں
ستارے سہمے رہتے ہیں چمن کمھلائے رہتے ہیں
سنا ہے اب تو چندا کی بھی لو تھرائی رہتی ہے
سنا ہے اب تو سورج کے لہو سے باس آتی ہے
سبھی چہروں کو نفرت اور ڈر نے یوں سجایا ہے
کہ سارے شہر پر جیسے کوئی آسیب چھایا ہے
نظم
سندھ میں رہنے والے دوست کے نام ایک خط
نیلما سرور