موند کر آنکھیں
بڑے ہی دھیان سے
میں نے پیچھے کی طرف
حوض کے پانی میں سکے پھینکتے ہی
اک ذرا سی چھیڑ کی
اپنے دل خوش فہم سے
اے باؤلے
اب تو ہو جائے گی پوری
خیر سے تیری مراد
سہ پہر کی دھوپ میں
حوض کے جھرنے میں سکے
سات رنگوں میں چمکتے
یوں دکھائی دے رہے تھے
جیسے ہم آواز ہو کر
سب اڑاتے ہوں مرے دل کا مذاق
جیسے آپس میں ہی
کر رکھا ہو برپا
میری نم خوردہ
ہتھیلی کے ستاروں نے فساد

نظم
سکہ پانی اور ستارہ
شاہین غازی پوری