کھٹ۔۔۔ کھٹ۔۔۔ کون؟ صبیحہ! کیسے؟ یوں ہی، کوئی کام نہیں
پچھلی رات۔۔ بھیانک گیرج۔۔ کیا کچھ ہو انجام۔۔ نہیں
میرا ذمہ۔۔ میں بھگتوں گی۔۔ تم پر کچھ الزام۔۔۔ نہیں
ہم ہیں اس اخلاق کے پیرو، ہم ہیں اس تہذیب کے لوگ
جس میں عفت اک ''مفروضہ'' عصمت جس میں ''ذہنی روگ''
جذبوں پر پہرے بٹھلانا کیا ''سودائے خام'' نہیں؟
دو بچوں کے باپ۔۔ تو کیا ہے؟ ''دل کا ہو انسان جوان''
تم بھی ایسے بن جاؤ نا جیسے ''منجھلے بھائی جان۔۔۔''
سالی اور سلج پر لٹو، بیوی سے حمام نہیں
ان سے۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ تہذیب سے اونچی، چھوٹے بھائی سے وقتی چاہ
شوہر آئے نہ آئے لیکن دیور کی ''تکتی ہیں راہ''
خواہش کی تکمیل بھی جاری، ''شادی بھی ناکام نہیں''
نوکر اور نمک اور مذہب۔۔۔ ان تاویلوں سے باز آؤ
مردوں کی ایسی نیکی پر آ جاتا ہے مجھ کو تاؤ
عورت کے ہونٹوں پر ٹھپہ اب مقبول عام نہیں
ہفتہ بھر میں اک دن ''ایسی لغزش'' کوئی عیب نہیں
ظاہر ہے پاپا ممی کو حاصل ''علم غیب'' نہیں
کالی راتوں کی باتوں سے واقف ''صبح و شام'' نہیں
جاتی ہوں، گھبراتے کیوں ہو؟ کیا اندھیاری گھور نہیں؟
دو دل راضی کے بارے میں قاضی کا کچھ زور نہیں
لو۔۔۔ یہ دس کا نوٹ۔۔۔ تمہاری ''اجرت'' ہے انعام نہیں
نظم
شوفر
شاد عارفی