تو ہمیشہ رہتا ہے چیں بر جبیں افسردہ دل
پھر کسی کی بزم عشرت میں نہ جا بہر خدا
خود ہی اپنی جان سے بے زار تو انصاف کر
تجھ سے اہل بزم پھر کس طرح خوش ہوں گے بھلا
چاہیئے اس طرح جانا محفل احباب میں
باغ میں جس طرح خوش خوش آتی ہے باد صبا
خیر مقدم کا اشارہ جھوم کر کرتی ہے شاخ
اور چٹک کر دیتی ہیں کلیاں صدائے مرحبا
جس شجر کے پاس سے گزرے لگا وہ جھومنے
پہنچے جس غنچے تک افسردہ تھا وہ ہنسنے لگا
دل پہ جو گزرے وہ گزرے کیوں کسی کو ہو خبر
سب سے بڑھ کر ہے خدا تو حال دل کا جانتا
شادی و غم جب کہ دونوں ہیں جہاں میں بے ثبات
وقت اپنا کاٹ دے ہنس بول کر بہر خدا

نظم
شرکت محفل
نظم طبا طبائی