ہمیں تم مسکراہٹ دو
تمہیں ہم کھلکھلاتے روز و شب دیں گے
یہ کیسے ہو
کہ تم بوچھاڑ دو
تو ہم تمہیں جل تھل نہ دے دیں
اور صحراؤں کو فرش آب نہ کر دیں
ہمارا دھیان رکھو تم
تمہیں دنیا میں رکھیں گے ہم اپنی آرزؤں کی
یہ کیسے ہو
کہ تم سوچا کرو
اور ہم تمہاری سوچ کو تجسیم نہ کر دیں
مروج چاہتوں کے
بے لچک آئین میں ترمیم نہ کر دیں
تمہیں یہ بھی بتاتے ہیں
اگر کوئی خلش ہے یا کوئی ابہام ہے دل میں
تو پھر آگے نہیں بڑھنا
کہ ہم شفاف ہیں
شفافیاں ہی چاہتے ہیں
بے نظر شیشوں میں اپنے عکس کو میلا نہیں کرتے
تمہیں یہ بھی بتاتے ہیں
اگر تم چھب دکھا کے چھپ گئے
تو ہم تمہیں ڈھونڈیں گے چاہے آپ کھو جائیں
اگر تم کہکشاں مسکن بناؤ گے
تو ہم بھی روشنی زادے ہیں
سورج کے پجاری ہیں
ہم ایسے سب ستارے توڑ دیتے ہیں
جو ہم سے روشنی کی بھیک بھی لیتے ہیں
آنکھوں میں بھی چبھتے ہیں
اگر پاتال میں چھپنے کی کوشش کی
تو پھر اے سیم تن!
دھرتی ہمارے واسطے سونا اگلتی ہے
بھلا چاندی کہاں اس میں ٹھہرتی ہے
ہماری راہ میں
شیشہ نما پانی کی جھیلیں مت بچھانا تم
یہ کنکر پھینک کر ہی فیصلہ ہوگا
کہ اس پہنائی میں کشتی اترتی ہے
یا پھر ہم پاؤں دھرتے ہیں
مگر ایسا نہ کرنا تم
کہ ہم ایسا ہی کرتے ہیں
نظم
شفافیاں
وحید احمد