تجھے اعتبار سحر بھی ہے
تجھے انتظار بہار بھی
مگر اے صدائے امید دل
مری زندگی تو قلیل ہے
یہ شب خزاں
ہے مرے گماں سے عجیب تر
کوئی آس پاس نہیں یہاں
کوئی شکل ہو جو دل آفریں
کوئی نام ہو جو متاع جاں
کوئی چاند زینۂ ابر سے
اتر آئے اور مجھے تھام لے
کوئی خواب رو بڑی گہری نیند سے
چونک کر مرا نام لے
سر شام کوئی ستارہ جو
کوئی راہ رو کسی راہ میں
جسے ہو فقط یہی آرزو
مرا ہاتھ تھام کے روشنی کے
کسی مدار میں لے چلے
مری نیند چوم کے
خواب کے کسی مرغزار میں لے چلے
مگر اے بہائے امید دل
تری زندگی بھی قلیل ہے
یہ خزاں کی رات
طویل ہے

نظم
شب خزاں
ثمینہ راجہ