پھر برق فروزاں ہے سر وادئ سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسار حقیقت
پیغام اجل دعوت دیدار حقیقت
اے دیدۂ بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتل جاں چارہ گر کلفت غم ہے
گلزار ارم پرتو صحرائے عدم ہے
پندار جنوں
حوصلۂ راہ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سر وادئ سینا، اے دیدۂ بینا
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابین من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسم ستم حکمت خاصان زمیں ہے
تائید ستم مصلحت مفتیٔ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
نظم
سر وادیٔ سینا
فیض احمد فیض