اک دن مجھ سے سمندر نے کہا
کون اٹھائے گا مرا بار گراں
اپنی آشفتہ سری کی خاطر
میں نے قربان کیا عیش جہاں
رات کو چین نہ دن کو آرام
عمر ناشاد کٹی گرم فغاں
مضمحل ہو گئے اعضا میرے
دست و پا میں نہ رہی تاب و تواں
موج کو کھیل سے فرصت ہی نہیں
اس سبک سر کو مری فکر کہاں
کچھ توقع تھی مجھے ساحل سے
وہ مگر نکلا فقط ریگ رواں
بادل آتے ہیں چلے جاتے ہیں
ایک پل میں یہاں اک پل میں وہاں
اس زمانے میں ہو کس سے امید
غم سے بیگانہ سمجھ سکتا ہے
درد کا راز محبت کی زباں
اپنے سینے میں بٹھا لو مجھ کو
تا کہ میں پاؤں مشقت سے اماں
سن کے بیچارے کی روداد الم
کر لیا میں نے اسے دل میں نہاں
آؤ دیکھو مرے اشکوں میں اسے
اک سمندر ہے کراں تا بہ کراں
نظم
سمندر اور میں
منیب الرحمن