سگ ہم سفر اور میں
وہاں آ گئے ہیں
جہاں ختم ہے کائنات
یہاں سے نشیب زمان و مکاں کا اگر جائزہ لیں
تو لگتا ہے جیسے دھندلکوں کے اس پار
جو کچھ بھی ہے ٹھیک ہے
حسب معمول ہے
مرا نام شینانڈورا ہے
میں کتنی صدیوں سے اس بحر ذخار میں خیمہ زن تھا
جو مواج سمت دگر میں رہا
ایک دن
دفع آسیب و رفع بلا کے لیے
کچھ پر اسرار فقروں کی گردان کرتا ہوا
جادۂ خوف پر گامزن تھا
میں اپنے شبستاں کی جانب
کہ اک لرزش ناگہاں سے گزرنا پڑا
تو اندھے زمانوں کی صحرا نوردی کے آخر میں
وہ ایک تاریک لمحہ تھا جب
سگ ہم سفر اور میں
ماندہ و گرسنہ
یہاں اس علاقے میں وارد ہوئے
اور اندھیرے میں کچھ فاصلے پر تری روشنی دیکھ کر
رقص کرنے لگے
سگ ہم سفر اور میں
سگ ہم سفر اور میں
نظم
سگ ہم سفر اور میں
رئیس فروغ